کہتے ہیں کہ نہ تو میرے دل میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ جیسا ایمان اور یقین موجود ہے اور نہ تُو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت اور طریقہ پر عمل پیرا ہے۔ ان کمزوریوں کی وجہ سے اگر میں وقت کے سامری کے فریب اور جادو میں مبتلا ہو گیا ہوں، تو تُم اس زمانہ کے بت فروش آزر کی پیروی کر رہے ہو۔ یعنی پوری ملتِ اسلامیہ پر ہی باطل نظریات و خیالات کا دور دورہ ہے۔
میری حالت اس بلبل کی مانند ہو چکی جس کی مترنم آواز اس کے گلے میں گھٹ کر رہ گئی ہے اور وہ اپنا حال بھی بیان کرنے سے قاصر ہے، اور تُو اپنی پستی کی وجہ اس پھول کی مانند ہو چکا ہے جس میں نہ تو خوشبو باقی ہے اور نہ ہی خوشنما رنگت۔ میرے پاس محض آرزوؤں کے غم کی داستان ہے اور تُو اپنی بدنصیبی و محرومی کا ماتم کرتا رہتا ہے۔ یعنی ہم دونوں ہی امت کے زوال پر غمزدہ ہیں۔
امت کی اس زبوں حالی میں میری حالت یہ ہے کہ مجھے عیش و طرب میں سکون کے بجائے رنج محسوس ہوتا ہے، لوگوں کے لئے جو شہد ہے وہ میرے لئے زہر ہے، ایسی حالت میں میرا وجود و عدم وجود اور میری زندگی و موت دونوں برابر ہیں۔ جبکہ تیرا دل جو حرم تھا، ایمان اس میں جاگزیں تھا اب باطل تصورات کے ہاتھوں گرفتار ہو چکا ہے اور تونے اپنا دین کافروں کو بیچ ڈالا ہے۔
ہر دم زندگی رواں دواں ہے، ہر آنے والا سانس زندگی کو کم کر رہا ہے اور اسے آخری منزل موت کی طرف لے جا رہا ہے، زندگی کا یہی غم اس کے لئے زہر ثابت ہو رہا ہے اور انسان کی مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن زندگی کے گزرنے پر تُو غم نہ کر بلکہ ہر حال میں راضی بہ رضائے رب رہ، کیونکہ ایک مومن کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ خدا کی مشیت سے راضی اور مستقبل سے پرامید رہتا ہے۔
اے مردِ مومن! اگر تیرے دل میں عشقِ حقیقی کی چنگاری موجود ہے تو تجھے دنیا کے مال و دولت اور وسائل کی فکر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ مومن کی طاقت مال و دولت سے نہیں بلکہ عشقِ خدا کی بدولت ہوتی ہے۔ جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ جَو کی روٹی کھاتے تھے لیکن ایمان کی طاقت سے وہ وقت کے بڑے سے بڑے بہادر کو بھی زیر کر دیتے تھے۔ یعنی باطل سے جنگ کے لئے دنیاوی اسباب کی نہیں بلکہ ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔
اے میرے رہنما! مجھے کوئی ایسا طریقہ اور طرز بتا کہ جس کو اپنا کر ہم میں پھر سے اسلاف جیسا ایمان و یقین پیدا ہو جائے اور ہمیں بھی وہی شان و شوکت عطا ہو جو انکو حاصل ہوئی تھی۔
اے مسلمان! تم نے حرم یعنی اسلام کے ساتھ بیوفائی اور دوہرے پن کا مظاہرہ کیا ہے جو بظاہر وفا معلوم ہوتی ہے، زبان سے تو اسلام کا اقرار کرتے ہو لیکن عمل تمہارا کچھ اور ہے، اگر تمہاری اس جفا کا تذکرہ میں بتوں سے کروں تو وہ بت بھی خدا خدا کرنے لگیں گے۔ یعنی بت جو خدا کی ضد ہے وہ بھی خدا کو یاد کرنے لگیں گے۔
دنیا میں بہت سے تغیرات و انقلابات آئے، نئی تہذیبیں آئیں اور کچھ چلی بھی گئیں، پھر بھی صورت حال اب بھی وہی ہے، آج بھی حق و باطل نبرد آزما ہیں جیسے پہلے تھے۔ جس طرح دورِ نبوی میں باطل کی صفوں میں مرحب اور عنتر کھڑے تھے اور حق کی صف میں ان کے مد مقابل حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اسی طرح آج بھی باطل طاقتوں اور نظریات کے خلاف اسَداللّہی صفت والے مومن کھڑے ہیں، یہ معرکۂ حق و باطل تاقیامت یونہی جاری رہے گا۔
آخری شعر میں علامہ اقبال رسالت مآب صل اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے شہنشاہِ عرب و عجم! آپکے امتی آپکے در پر دستہ بستہ کرم کے منتظر کھڑے ہیں جو آپکے سامنے تو فقیر ہیں لیکن آپ ﷺ کے غلام ہونے کی وجہ سے انکی یہ شان ہے کہ وہ سلاطین کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔