علامہ فرماتے ہیں کہ رات کے آخری حصہ میں ستاروں کی روشنی کا ماند پڑنا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اب رات ختم ہونے کو ہے اور سورج مشرق نکل کر تاریکی مٹا دے گا۔ یعنی دنیا میں بظاہر تو چہار سو تاریکی پھیلی ہوئی ہے لیکن عنقریب ایک بار پھر اسلام کا سورج طلوع ہوگا اور دنیا میں انصاف کا بول بالا ہوگا۔
اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مشرق (مغربی تہذیب کی ضد) کے لوگوں میں، جو غفلت کا شکار تھے، بیدار ہو رہے ہیں اور انکی خودی پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ ایک راز جسے بو علی سینا اور الفارابی جیسے مفکرین اور فلسفی بھی سمجھنے سے قاصر ہیں، صرف انھیں پر فاش ہوتا ہے جنھیں ﷲ نے بصیرت عطا کی ہے۔
جنگ عظیم اول نے اور مغربی افکار کی یلغار نے مسلمانوں پر یہ بات خود ہی واضح کر دی ہے کہ اصل حقیقت اور انصاف کا علم بردار صرف اسلام ہی ہے۔ اس سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے موجِ دریا کے تھپیڑے کھا کر ہی ایک سیپ کے دل میں موتی پیدا ہوتا ہے۔
علامہ اس شعر میں اپنی توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ بہت جلد مسلمانوں کو ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ترکوں جیسی شان و شوکت، کہ انھوں نے تین براعظموں پر حکومت کی، ہنوستانیوں جیسی فکر و نظر، اور عرب کے لوگوں جیسی فصاحت اور بلاغت ملنے والی ہے۔ یعنی وہ تمام نعمتیں اور مراعات عطا ہونگی جس کے مسلمان مستحق ہیں۔
اس شعر میں اقبال خود کو ہی مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اے بلبل! (اقبال) اگر مسلمانوں میں غفلت اور ذہنی پستی کا کوئی عنصر باقی رہ جائے تو تُو اپنے کلام اور نغمہ کی حرارت کو اور تیز کر دے۔ جس طرح محفل میں اگر سامعین اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں تو مغنّی اپنی آواز مزید بلند کر کے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتا ہے۔
اے بلبل! تُو ہر جگہ، ہر محفل اور ہر تقریب میں، جہاں بھی تجھے موقع ملے، مسلمانوں کی بیداری اور اصلاح کی کوشش کر۔ ملت کی اصلاح اور بیداری کی فکر پارے کی مانند ہے جو ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ اس لئے تیرے اندر بھی ہمیشہ ملت کی اصلاح کی تڑپ باقی رہنی چاہئے، اگر تُو واقعی مسلمانوں کا خیر خواہ ہے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ بات ہر گز زیب نہیں دیتی وہ دوسروں کے مادّی وسائل اور ہتھیاروں سے مرعوب ہو جائیں، جبکہ ان کے پاس ایمان کی دولت اور اسلاف کی فتحمندانہ فطرت اور شجاعت کا نمونہ موجود ہے کہ کس طرح انھوں نے قلتِ تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود باطل کے بڑے لشکر کو شکست سے دوچار کیا۔
اے بلبل! (اقبال) تُو ان غفلت اور ناامیدی کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے دلوں میں پھر سے امید اور اپنے مقصد سے محبت کی تڑپ پیدا کر دے، تیرے ترنم میں اتنی شدت اور گداز ہو کہ ملت کا ہر فرد اپنے مقصد کی جستجو میں سرگرداں و پریشاں ہو جائے۔