(پہلا بند)طلوع اسلام

یہ نظم 1923 میں لکھی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب عالم اسلام پر ایک نا امیدی اور غفلت کی کیفیت طاری تھی، خلافتِ عثمانیہ کا سایہ مسلمانوں کے سر سے اٹھ چکا تھا، پوری اسلامی دنیا قومیتوں اور عصبیتوں کے نام پر بٹ چکی تھی اور اکثر مسلم خطے عرصۂ دراز کی غلامی کی وجہ سے ذہنی غلامی، بے اعتمادی اور مرعوبیت کا شکار ہو چکے تھے۔ اس نظم میں علامہ نے شکست خوردہ مسلمانوں کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی ہے اور اسلام کے شاندار مستقبل کی خوشخبری دی ہے۔

 دلیلِ صُبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
 اُفُق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی

معنی

تنک تابی: بجھنا یا مدھم ہونا۔
افق: آسمان کا کنارا، جہاں آسمان اور زمین ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
گراں خوابی: گہری نیند، غفلت۔

تشریح

علامہ فرماتے ہیں کہ رات کے آخری حصہ میں ستاروں کی روشنی کا ماند پڑنا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اب رات ختم ہونے کو ہے اور سورج مشرق نکل کر تاریکی مٹا دے گا۔ یعنی دنیا میں بظاہر تو چہار سو تاریکی پھیلی ہوئی ہے لیکن عنقریب ایک بار پھر اسلام کا سورج طلوع ہوگا اور دنیا میں انصاف کا بول بالا ہوگا۔


عُروُقِ مُردۂ مشرق میں خُونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی

معنی

عروق: عِرق کی جمع، رگیں۔
سینا: ابو علی سینا، مشہور طبیب و فلسفی۔
فارابی: ابو نصر الفارابی، مشہور اسلامی فلسفی۔

تشریح

اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مشرق (مغربی تہذیب کی ضد) کے لوگوں میں، جو غفلت کا شکار تھے، بیدار ہو رہے ہیں اور انکی خودی پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ ایک راز جسے بو علی سینا اور الفارابی جیسے مفکرین اور فلسفی بھی سمجھنے سے قاصر ہیں، صرف انھیں پر فاش ہوتا ہے جنھیں ﷲ نے بصیرت عطا کی ہے۔


 مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
 تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

معنی

تلاطم: موجوں کا زور۔
گوہر: موتی، قیمتی پتھر۔

تشریح

جنگ عظیم اول نے اور مغربی افکار کی یلغار نے مسلمانوں پر یہ بات خود ہی واضح کر دی ہے کہ اصل حقیقت اور انصاف کا علم بردار صرف اسلام ہی ہے۔ اس سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے موجِ دریا کے تھپیڑے کھا کر ہی ایک سیپ کے دل میں موتی پیدا ہوتا ہے۔


عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
 شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی

معنی

درگاہِ حق: خدا کا دربار۔
شکوہ: شان و شوکت۔
نطقِ اعرابی: عربوں کی گفتار اور فصاحت و بلاغت۔

تشریح

علامہ اس شعر میں اپنی توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ بہت جلد مسلمانوں کو ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ترکوں جیسی شان و شوکت، کہ انھوں نے تین براعظموں پر حکومت کی، ہنوستانیوں جیسی فکر و نظر، اور عرب کے لوگوں جیسی فصاحت اور بلاغت ملنے والی ہے۔ یعنی وہ تمام نعمتیں اور مراعات عطا ہونگی جس کے مسلمان مستحق ہیں۔


اثر کچھ خواب کا غُنچوں میں باقی ہے تو اے بُلبل!
 “نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی” 

(ترجمہ: اگر سامعین کا ذوق کم ہو رہا ہو تو نغمہ سرائی کی آواز اور بلند کر دو۔)

تشریح

اس شعر میں اقبال خود کو ہی مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اے بلبل! (اقبال) اگر مسلمانوں میں غفلت اور ذہنی پستی کا کوئی عنصر باقی رہ جائے تو تُو اپنے کلام اور نغمہ کی حرارت کو اور تیز کر دے۔ جس طرح محفل میں اگر سامعین اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں تو مغنّی اپنی آواز مزید بلند کر کے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتا ہے۔


تڑپ صحنِ چمن میں، آشیاں میں، شاخساروں میں
 جُدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیرِ سیمابی 

معنی

شاخسار: بہت سے درخت یا بہت سی ٹہنیوں والا درخت۔
سیمابی: مراد پارے کی حرکت کرنے کی صفت۔

تشریح

اے بلبل! تُو ہر جگہ، ہر محفل اور ہر تقریب میں، جہاں بھی تجھے موقع ملے، مسلمانوں کی بیداری اور اصلاح کی کوشش کر۔ ملت کی اصلاح اور بیداری کی فکر پارے کی مانند ہے جو ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ اس لئے تیرے اندر بھی ہمیشہ ملت کی اصلاح کی تڑپ باقی رہنی چاہئے، اگر تُو واقعی مسلمانوں کا خیر خواہ ہے۔


وہ چشمِ پاک‌بیں کیوں زینتِ برگستواں دیکھے
 نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی

معنی

چشمِ پاک بیں: پاکیزہ نگاہ۔
برگستواں: سپاہی اور گھوڑے کا لباس۔

تشریح

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ بات ہر گز زیب نہیں دیتی وہ دوسروں کے مادّی وسائل اور ہتھیاروں سے مرعوب ہو جائیں، جبکہ ان کے پاس ایمان کی دولت اور اسلاف کی فتحمندانہ فطرت اور شجاعت کا نمونہ موجود ہے کہ کس طرح انھوں نے قلتِ تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود باطل کے بڑے لشکر کو شکست سے دوچار کیا۔


 ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے
 چمن کے ذرّے ذرّے کو شہیدِ جُستجو کر دے

تشریح

اے بلبل! (اقبال) تُو ان غفلت اور ناامیدی کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے دلوں میں پھر سے امید اور اپنے مقصد سے محبت کی تڑپ پیدا کر دے، تیرے ترنم میں اتنی شدت اور گداز ہو کہ ملت کا ہر فرد اپنے مقصد کی جستجو میں سرگرداں و پریشاں ہو جائے۔


تیسرا بنددوسرا بند